Aarzoo



اندھے رستے کر رہے ہیں منزلوں کی آرزو

توڑ کر مٹی میری دوبارہ کیوں گوندھی گئی
کر رہا ہے یہ جہان کن صورتوں کی آرزو

آسماں پر ابر کا ہلکا سا بھی ٹکڑا نہیں
خشک مٹی کر رہی ہے بارشوں کی آرزو

پھر میرا ذوقِ تخیل بھی مجسم ہو گیا
پھر ہوئی ذوقِ سفر کو قافلوں کی آرزو

اک عجب منظر میری پیشِ نظر ہے آج کل
پیار کی دہلیز پر ہے نفرتوں کی آرزو

جب زمیں و آسماں آپس میں مل سکتے نہیں
کر رہی ہے خاکِ پا کیوں رفعتوں کی آرزو

حلقۂ گرداب میں شہناز اک مدت سے ہے
دائروں کے باسیوں کو ساحلوں کی آرزو

Please Do Click g+1 Button below If You Liked The Post & Share It